جیسے خیالات‘ ویسی زندگی
توانائی سے مراد جسمانی طاقت نہیں جس سے آپ تین من وزن اٹھا سکتے ہیں۔ توانائی سے مراد نفسیاتی قوت ہے جسے قرآن نے روحانی یا ایمانی قوت کہا ہے۔ توانائی کو آپ دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ جسمانی اور نفسیاتی‘ جسم کی طاقت عمر کے ساتھ ساتھ گھٹتی جاتی ہے اور بوڑھا ہو کر انسان چارپائی سے اٹھنے کے بھی قابل نہیں رہتا۔ جسمانی طاقت کو نفسیاتی توانائی ایسا سہارا دیئے رکھتی ہے جس سے انسان وقت سے پہلے ہمت نہیں ہارتا۔ آپ نے ستر برس سے زیادہ عمر کے بوڑھے دیکھے ہوں گے جو جوانوں کی طرح گردن تان کر چلتے ہیں۔ بچوں کے ساتھ گلی ڈنڈا کھیلنے لگتے ہیں۔ کشتی‘ کبڈی‘ ہاکی اور فٹ بال کے میچوں میں جاکر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی ایسے جوش و خروش سے کرتے ہیں جیسے وہ خود کھیل میں شریک ہوں‘ یہ نفسیاتی توانائی کا کرشمہ ہے۔ آپ نے ایسے جواں سال آدمی بھی دیکھے ہوں گے جو اس طرح چلتے ہیں جیسے سر پر پہاڑ آن پڑا ہو۔ بات کرتے ہیں تو شک ہوتا ہے جیسے ان کا کوئی عزیز فوت ہوگیا ہو۔ ان کے چہرے اداس اور ہونٹ مسکراہٹ سے محروم ہوتے ہیں۔ ذرا سی مشقت کرنی پڑے تو وہ دق کے مریضوں کی طرح ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ ان لوگوں میں جسمانی طاقت ضرور ہوتی ہے مگرنفسیاتی توانائی کو انہوں نے بیکار کررکھا ہے۔ لہٰذا ان کی جسمانی طاقت بھی مفلوج ہوگئی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ نہ جانے کونسا نامراد روگ لگ گیا ہے جس کی کوئی تشخیص ہی نہیں کرسکتا۔
نفسیاتی توانائی کبھی کم نہیں ہوتی بلکہ جتنا زیادہ استعمال کرو اتنا ہی بڑھتی ہے۔ اس کی مثال گاڑی کے ڈائنمو کی ہے جو انجن کے چلنے کے ساتھ بیٹری کو چارج کرتا رہتا ہے اگر بگڑ جائے تو بیٹری فوراً ختم ہوجاتی ہے جن خواتین و حضرات کو جسم ٹوٹنے اور اداس رہنے کی شکایت ہے انہوں نے اپنے ڈائنمو خراب کررکھے ہیں۔
نفسیاتی توانائی یا صحیح معنوں میں روحانی قوت کے بینظیر مظاہرے ستمبر 1965ءاور دسمبر 1971ءکی جنگوں میں پاک فوج نے کئے تھے۔ مسلسل سترہ دن اور سترہ راتیں آنکھ جھپکے بغیر‘ ایک آدھ منٹ آرام کئے بغیر اور پہلے تین چار دن کچھ کھائے پیے بغیر لڑتے رہنا اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ انسان کے اندر اتنی قوت ہوتی ہے جس کی کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی۔
محاذسے بعض ایسے زخمی ہسپتال لائے گئے تھے جنہیں میڈیکل سائنس کی روسے تین چار گھنٹے پہلے مرا ہوا ہونا چاہیے تھا بعض کے سر کھل گئے تھے بعض کے سینے اور پیٹ چاک تھے۔ ہسپتال پہنچنے تک جسم میں خون کا ایک قطرہ باقی نہ رہا تھا پھر بھی وہ زندہ تھے بلکہ آپریشن ٹیبل پر غشی کی حالت میں نعرے لگاتے اور اٹھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس توانائی کا تعلق انسانی نفسیات سے ہوتا ہے۔
یہ توانائی صرف پاک فوج کے جوانوں میں ہی نہیں آپ سب میں موجود ہے۔ ہم بہت سے آدمیوں کی مثالیں پیش کرسکتے ہیں جو عام حالات میں چلتی پھرتی لاشیں لگتے ہیںلیکن خطرے کے وقت انہوں نے جسمانی طاقت کے حیران کن کارنامے کردکھائے۔ اکیلی عورت کا ڈاکووں سے مقابلہ اور ڈاکووں کو بھگا دینے کے کئی واقعات آپ نے سنے ہوں گے۔
ہمارا ایک دوست ابھی تک حیران ہے کہ وہ چھ فٹ بلند دیوار کس طرح پھلانگ گیا تھا۔ ایک آدمی آتش بازی کا بہت سارا سامان زمین پر رکھے بیچ رہا تھا قریب ایک چھ فٹ اونچی دیوار تھی۔ میرا دوست آتش بازی اور دیوار کے درمیان کھڑا تھا۔ کسی طرح آتش بازی کے سامان کو آگ لگ گئی پٹاخے پھٹنے لگے اور ہوائیاں زناٹوں سے ہر طرف اڑنے لگیں۔
ہمارا دوست کہتا ہے کہ میں پھٹتے ہوئے بارود اوردیوار کے درمیان کھڑا تھا دو سیکنڈ بعد دیوار میرے اور بارود کے درمیان تھی مجھے کچھ علم نہیں کہ کسی شراشرار نے مجھے چھ فٹ اونچی دیوار سے دوسری طرف پھینک دیا تھا۔ یہ شرشرار نفسیاتی توانائی ہے۔
یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ انسان کے اندر توانائی کا لامحدود ذخیرہ موجود ہے اور یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ اس توانائی کو جتنا استعمال کرو اتنی ہی بڑھتی ہے۔ ہم پیچھے بیان کرآئے ہیں کہ ماہرین نفسیات نے کہا ہے کہ ایک اوسط درجہ انسان نیم بیداری کی حالت میں روزمرہ کے کام کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ان میں جوش وخروش نہیں ہوتا اور وہ مردہ دل ہوتے ہیں۔ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کی بجائے اپنے آپ کو حالات کے حوالے کردیتے ہیں۔ ان کی مثال ان ملاحوں کی ہے جو طوفان میں کشتی کو قابو میں رکھنے کی بجائے کشتی کو طوفان کے حوالے کردیتے ہیں لہٰذا شکست قبول کرنے سے گریز کریں۔ علم نفسیات نے چند عملی طریقے تجویز کئے ہیں جن پر سختی سے عمل کرنے سے آپ اپنی توانائی کو بیدار کرسکتے ہیں ہم ایسے بہت سے طریقے بیان کرآئے ہیں ان پر عمل کریں۔
یہ توانائی ضائع ہونے کا باعث یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کا دماغ سوچتا ہے تو توانائی استعمال ہوتی ہے اگر سوچ تعمیری ہے تو توانائی بڑھتی ہے اور اگر سوچ تخریبی ہے تو توانائی ضائع ہوتی ہے تخریبی سوچ میں حسد‘ جلن‘ کڑھن‘ غصہ‘ چڑچڑاپن‘ بے معنی اور بے بنیاد خوف‘ دوسروں کے نقائص کے متعلق سوچتے رہنا اور کام میں دلچسپی نہ لیتے ہوئے کام سے نفرت کا جواز سوچتے رہنا شامل ہے۔
خوف توانائی کو زیادہ بیکار کرتا ہے۔ تخریبی سوچ میں فلمی مکالمے اور گیت دہراتے رہنا‘ فحش اور بے مقصد لٹریچر پڑھنا اور اس کے مناظر کو تصوروں میں لاکر دل بہلاتے رہنا‘کوئی لڑکی پاس سے گزر جائے تو تصوروں میں اس سے محبت کرنا اور دماغ میں جنسی اشتعال پیدا کئے رکھنا خاص طور پر شامل ہے۔ان عادتوں سے توانائی بیکارہوجاتی ہے۔
توانائی کے ضیاع کو روکنے کیلئے اپنی سوچوں پر قابو پانا لازمی ہے۔ اس مقصد کے حصول کیلئے آپ کو ان تمام ہدایات پر عمل کرنا ہوگا جو ہم بیان کر آئے ہیں۔ مختصر یہ کہ آپ کی سوچ تعمیری ہو تخریبی نہ ہو۔ مثبت ہو منفی نہ ہو اور خوشگوار ہو شکست خوردہ نہ ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں